دولت اور طاقت کا نشہ
آدمی اس قدر مغرور کیوں ہے؟ دولت اور رتبے یاآدمی اس قدر مغرور کیوں ہے؟ دولت اور رتبے یا عہدے کا گھمنڈ اس حد تک بڑھ کیوں چکا ہے کہ اگر وہ غریبوں کو انسان تک نہ سمجھے؟ کیا یہ دولت، یہ رتبہ، یہ عہدہ عطا کرنے والی ذات خدا تعالیٰ کی نہیں؟ تو پھر وہ اپنی دولت یا طاقت کے زعم میں اسی خدا کی مخلوق کیساتھ ناروا سلوک کیوں کرتا ہے؟ دورِ حاضر میں ظلم و بر بریت کے ایسے واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ انسانی روح تک کانپ جاتی ہے۔ ان میں بیشتر واقعات امراء کی جانب سے کیے گئے ظلم اور زیادتیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی زمیندار اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے نوکروں کو بے جا ظلم کا نشانہ بناتا ہے تو کبھی کوئی دولت مند ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے اپنی دولت کا استعمال کرتا اور دوسروں کے حقوق کا استحصال کرتا نظر آتا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران اپنے عہدے اور دنیاوی مرتبے کا استعمال اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور عزیزوں کی حمایت یا طرف داری کیلئے سفارش کی صورت میں کرتے ہیں اور یوں یہ سفارش حقداروں کا جائز حق چھین لیتی ہے۔ جب کوئی دولت مند یا رتبے کی بناء پر طاقت رکھنے والا شخص کسی محفل یا دفتر میں جاتا ہے تو ہر کسی کو خود سے کمتر سمجھ کر ایسا سلوک یا انداز اختیار کرتا ہے جس سے اسکا غرور اور گھمنڈ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وہ ہر کسی کو خود سے متاثر اور اپنے رعب و دبدبے کے زیرِ اثر رکھنا چاہتا ہے۔غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور انکا حق غصب کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔کیا ایسے لوگوں کے دل سے خدا کوفی ختم ہو چکی ہے؟ کیوں وہ غریبوں اور کمزوروں کو انسان تصور نہیں کرتے؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ کل کو انکی یہ دولت ، یہ رتبہ، یہ عہدہ خداکی مرضی سے چھِن بھی سکتا ہے اور وہ بھی غربت یا کمزوری کی حالت سے دوچار ہو سکتے ہیں جسکے بعد ان سے بھی یہی سلوک کیا جا سکتا ہے؟بجائے اسکے کہ وہ ان نعمتوں پر خدا کی ذات کے مشکور ہوں، وہ اس چیز پر اتنا اترانے کیوں لگتے ہیں جو انکے بس کی نہیں اور ہے ہی خدا کی عطا کردہ؟غرور کو زوال ضرور ہے!